پیر, مارچ 27, 2023
Homeطنز و مزاحپالتو شوہر

پالتو شوہر

- Advertisement -
- Advertisement -


از قلم: مبشر عزیز

میں کافی عرصہ ملک سے باہر رہا۔ ویسے تو ہر تین یا چھے ماہ کے بعد میرا چکر لگتا تھا لیکن میری ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ میں یہ عرصہ اپنی والدہ کے ساتھ اپنے آبائی قصبے میں گزاروں۔۔۔۔جب میں باہر سے مستقل طور پر واپس آیا تو خیال آیا کہ تمام دوستوں اور رشتے داروں سے ملا جائے خاص طور پر ان ”اکھڑ اور اڑیل کنوارں“ سے جو میری غیرموجودگی میں اپنی اپنی بیگمات کو ”پیارے“ ہوچکے تھے۔

ایک صبح دو آلو والے پراٹھے چائے کے ساتھ رگڑ ہی رہا تھا کہ مرکزی دروازے کھٹکا، دروازہ کھولنے پر اپنے کزن کم دوست مراد کو باہر کھڑے پایا۔۔
”چل یار! فراز کے گھر چلتے ہیں“ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔
“آ بھائی ناشتہ تو کرلے“ میں نے اسے اندر گھسیٹا۔
تھوڑی دیر میں حلیہ درست کرکے میں اور مراد گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔


فراز صاحب شادی سے پہلے بہت غصہ ور تھے اور صبح کو پراٹھے کھانے کے بعد دوپہر کو یونیورسٹی سے آتے ہی بڑی بدتمیزی کے ساتھ ماں اور بڑی بھابھی کے پیچھے ایسے پڑجاتے تھے کہ اسے فوراً سے پیشتر کھانا نہ دیا گیا تو اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جائے گی۔


اب فراز صاحب ماشااللہ سے ایک ادارے میں کافی اعلیٰ عہدے پر فائز اور ایک عدد گاڑی کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب زوجہ بھی ہوگئے تھے۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اس نے اپنی بیگم کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہوگا۔
خیر ہم فراز صاحب کے گھر پہنچے اور سیدھے اس کے حصے (پورشن) کے طرف بڑھ گئے۔
میری گناہ گار آنکھوں نے اندر گھستے ہی جو منظر دیکھا۔ یقین کیجیےمیں نے اپنی آنکھوں کو زور سے ملا کیونکہ میرا دل ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا کہ وہ جابر فراز جو پروں پر پانی نہیں گرنے دیتا تھا اب انتہائی بے چارگی کی حالت میں چائے کے کپ میں پاپے (رس) ڈبو ڈبو کر کھا رہا تھا۔ مجھے اس وقت وہ خاندان کا مظلوم ترین خاوند نظر آرہا تھا۔ مجھ پر رقت سے طاری ہوگئی کہ کہاں وہ شیر جوان اور کہاں یہ پاپے کترتا چوہا۔
”خیر ہے! پیٹ خراب تو نہیں چیتے؟“ میں نے فکرمندی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔۔۔ حالانکہ ایام کنوارگی میں پیٹ خراب ہونے کے باوجود بھی تین چار پراٹھے کھانے کے باوجود اس کی بھوک نہیں مٹتی تھی۔

- Advertisement -


“نہیں بھائی! بس دل نہیں کرتا اب ۔۔۔۔ تانی تانی۔۔۔ موبی بھائی آئے ہیں “ ساتھ ہی اس نے اپنی بیوی کو آواز لگائی۔
کوئی پندرہ منٹ بعد اندر سے ایک بھاری بھرکم خاتون کی آمد ہوئی۔
“لگتا ہے فراز کو آپ نے چھٹی والے دن کام کرانے کے لیے اٹھایا ہے اور اب سارا دن ڈرائیوری کروائیں گی؟“ میں شوخی سے بولا۔
“توبہ کریں بھائی۔۔۔ کسی نہ کام کے ۔۔۔ان سے اچھی گاڑی میں چلا لیتی ہوں اور سامان وغیرہ بھی میں ہی خریدتی ہوں۔ ان سے تو سامان بھی نہیں اٹھایا جاتا ہے“ اس نے شکائیتوں کا انبار لگا دیا۔


اتنے میں وہ کچھ لانے کے لیے اندر گئی تو میں نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فراز کی غیرت جگانا چاہی اور کہا “یار گاڑی تو تو بہت عرصہ پہلے سے چلاتا تھا اور اب بھابھی نے تجھے صفر کردیا“
“نہیں موبی بھائی! وہ مجھ سے اچھی گاڑی چلاتی ہے۔ پھل اور سبزی بھی کمال کی خریدتی ہے اور بچوں کو بھی یہی قابو میں رکھتی ہے کیونکہ میری تو وہ بات مانتے ہی نہیں ہیں“ فراز رن مریدوں کے لشکر کے سپہ سالار کی طرح گھگھیایا۔ مجھے اپنے دور کے ابا یاد آگئے جن کی ایک ڈانٹ ہی پیشاب خطا کروادیتی تھی۔


“ہم میاں بیوی کی ہم آہنگی کی وجہ سے خاندان والے ہم سے سڑتے ہیں“ تانی نے واپس آتے ہوئے کہا۔
مجھے امید واثق تھی کہ خاندان سے مراد لڑکے کے خاندان والے تھے۔ میں نے فراز کی طرف دکھ، افسوس اور ملامت آمیز نگاہوں سے دیکھا اور اٹھ کر باہر آگیا۔۔۔

ادھر سے نکل کر ہم گھومتے گھماتے ایک اور گھر میں جانکلے۔۔۔۔۔
“بھابھی بھابھی ۔۔۔ “ مراد نےاندر داخل ہوتے ہی چیخنا شروع کیاــ
اندر سے ایک خاتون خانہ نکلی اور تعارف کے بعد ہمیں دیوان خانے میں لے گئی۔۔۔۔


میں نے باتوں کے درمیان میں اس کے شوہر کی بابت پوچھا تو اس نے ایک لاغر کرسی پر بیٹھے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا جس کے مقابلے میں بلامبالغہ دیوان خانے کے ایک کونے میں رکھی ہوئی تپائی زیادہ معزز لگ رہی تھی۔
میں نے اس سے باتیں شروع کیں تو وہ جواب دینے سے اپنی بیوی کی طرف ضرور دیکھتا تھا اور غالباً بیوی کی آنکھوں یا ماتھے کی شکنوں کو دیکھ کر جواب دے رہا تھا۔


”میں آتی ہوں ابھی!“ یہ کہتے ہوئے اس مسکین کا شوہر مطلب بیوی اٹھ کر اندر گئی کہ اچانک دو بچے آپس میں الجھتے ہوئے اس شوہر نما مسکین مخلوق پر جاگرے اور وہ بےچارہ کرسی سمیت الٹ گیا۔ بڑی مشکل سے اس نے اٹھ کر غصے میں ایک بچے کے ایک نرم سا بے ضرر تھپڑ دے مارا لیکن یقین کیجیے صاحبزادے نے اس طرح شور مچایا جیسے اسے کسی سانپ نے کاٹ لیا ہے۔ شور سن کر محترمہ اندر دوڑی چلی آئیں اور بچے کے باپ پر آگ بگولا ہوگئیں کہ دوسروں کے سامنے بچے پر ہاتھ کیوں اٹھایا۔ قریب تھا کہ وہ اپنے منمناتے خاوند کے منہ پر تھپڑ دے مارتی، میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر درمیان میں کود پڑا۔ معاملہ رفع دفع ہوگیا تو بیگم صاحبہ نے بہت فخر سے ارشاد فرمایا ”بچے تو ان کی بات مانتے ہی نہیں ہیں لیکن مجھ سے بہت ڈرتے ہیں“۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا اس مسکین بندے سے خاک ڈریں گے جس کو ڈانٹنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔
ادھر سے بھی میں بہت بھاری دل کے ساتھ اٹھا اور سوچنے لگا یہ سارے بدتمیز اور اکھڑ جوانوں کو کیا ہوگیا ہے۔

دوپہر کا وقت ہورہا تھا اور ہم ایک جوڑے کے گھر ظہرانے پر مدعو تھے ۔ ہم ان کے گھر پہنچے تو ایک خاتون نے بہت گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا۔ شکل کچھ جانی پہچانی سی محسوس ہورہی تھی۔ اتنے میں ایک زنانہ سے جوان نے پردے کے پیچھے سے جھانکا۔ خاتون کے اشارے پر وہ شرماتے لجاتے سامنے آکر بیٹھ گیا۔ یقین کیجیے کرہ ارض پر اس سے سہما خاوند میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ تعارف پر معلوم پڑا موصوف ہمارے محلے دار رہ چکے تھے اور دل و جان سے ایک ماہ لقا پر فریفتہ تھے اور اب وہی ماہ لقا چنگیز خان کی پوتی کے روپ میں دو تین من کی حسین خاتون میں تبدیل ہوچکی تھیں۔ میں نے کہا ”بھابھی کچھ زیادہ ہی صحت مند نہیں ہوگئی ہیں“ تو یقین کیجیے اس شوہر نما مرد نے فوراً سے پیشتر کہا ”یہ موٹاپا رومی پر جچتا بھی بہت ہے“ ۔۔۔


یہ سن کر مجھے ایک وزنی بیوی کے شوہر کی بات یاد آگئی۔۔۔۔ جب اس نے اپنی صحت مند بیوی سے کراہتے ہوئے کہا تھا کہ ”جانِ ”من“ سسک سسک کر مرنا بہتر ہے یا ایک ساعت میں مرنا“
“جانو! ایک ساعت میں بہتر ہے“ اس نے لاڈ سے اپنے منحنی شوہر سے کہا۔
”تو برائے مہربانی اپنی دوسری ٹانگ بھی میرے اوپر رکھ دو۔۔“ شوہر نے بمشکل آواز نکالتے التجا کی۔۔۔
خیر کھانا لگ گیا اور پہلا نوالہ لیتے ہی میرا جو حال ہوا وہ پوچھیں مت، مجھے اپنے کانوں اور منہ سے دھواں نکلتا محسوس ہورہا تھا۔۔۔مجھے یقین ہے کہ شیطان اس کے شوہر کی کھانا کھانے سے پہلے منتیں کرتا ہوگا کہ اللہ کا واسطہ بسم اللہ پڑھ لے ورنہ مجھے یہ بد ذائقہ سالن کھانا پڑجائے گا۔۔۔
لیکن اس وقت میرے ڈیلے باہر آگئے جب اس کے شوہر نے پہلا نوالہ لیتے ہی کہا ”واہ بیگم واہ مزا آگیا اور یہ کہتے ہوئے نمک مرچ کی شدت سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔۔
“بتائیں ان کو میں کتنا اچھا کھانا بناتی ہوں“ بیوی نے ڈونگے کا چمچ لہراتے تقریباً اپنے شوہر کے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
“بالکل بالکل“ انتہائی بےچارگی سے جواب آیا۔


“بھائی آپ روسی سلاد ”رشین سیلڈ“ لیں“ میری طرف ڈونگا بڑھایا گیا۔
میرے منہ میں پانی بھرآیا کیونکہ روسی سلاد کامیں دیوانہ ہوں۔ میں نے جلدی سے رکابی میں سلاد ڈالا لیکن غم و غصے سے میرا برا حال ہوگیا جب میں نے زندگی میں پہلی دفعہ مٹر، پیاز اور کیلوں پر مشتمل روسی سلاد دیکھا۔
پوری دعوت میں رومی بولتی رہی۔۔۔۔ میرے بھائی نے میری دعوت کی، میری امی نے یہ بھجوایا ہے، میرے ابا اگر مجھے پیسے نہ دیں تو گزارا ہی نہ چلے وغیرہ وغیرہ اس دوران میں اس کے شوہر کو ترس بھری نگاہوں سے تکتا رہا جس کے چہرے پر قبض نما آثار تھے جو چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ”میری بیگم جھوٹ بول رہی ہے لیکن مجھ میں تردید کی ہمت نہیں ہے“۔

” یار کسی ایسی جگہ لے چل جہاں توازن ہو“ باہر آکر میں نے مراد کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہا۔
”او بھائی! یاد کر یہ سب مجھے طعنے مارتے تھے اور اب ان کا حال دیکھ“ مراد ایک قہقہہ لگا کر بولا۔
“اس عورت کے باتوں میں حد سے زیادہ مبالغہ آرائی ہے۔ اول تو اس عورت کا میکہ اتنا کھاتا پیتا ہے نہیں لیکن اس نے اپنے شوہر کو کہہ رکھا ہے کہ آپ کے پیسے کو نظر لگ جائے گی اس لیے میں اس طرح بول دیتی ہوں۔ اس کا شوہر اپنے بھائیوں، بہنوں سے بہت کم ملتا ہے لیکن بیوی کے دور پار کے رشتے داروں کی تقریبات میں بھی ضرور پہنچتا ہے اور فراز کا بھی یہی حال ہے۔ اس ہی لیے میں تجھے ایسوں کے گھر لے جارہا ہوں کیونکہ یہ لوگ تجھے ملنے نہیں آسکتے“ مراد نے مجھے تفصیلاً آگاہ کیا۔

“شام کو ایک شادی ہے، وہاں تجھے کچھ اور شخصیات سے

ملواؤں گاـ تیار رہنا“ مراد مجھے گھر کے باہر اتارتا ہوئے بولا۔

شام کو شادی ہال میں داخل ہوکر درمیان والی میزوں پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں مجھے اپنا رشتے کا ایک بھانجا نظر آیا جس کی شادی کو دوسال ہوگئے تھے وہ تقریباً اپنی بیوی کا پلو پکڑے چل رہا تھا۔ جہاں وہ رکتی وہ بھی رک جاتا اور مجال ہے اس کی نظر ادھر ادھر جارہی ہو۔ اگر غلطی سے ادھر ادھر بہکنے لگتی تو بیگم کی ایک گھوری اس کے اوسان خطا کردیتی۔ اچھا خاصا خوبصورت جوان اس وقت بھیگے مرغ کی طرح نظر آرہا تھا۔
“سالار!“ میں نے آواز لگائی۔


اس نے سٹپٹا کر اِدھر اُدھر دیکھا اور مجھ پر نظر پڑتے ہی اپنی جوان رعنا بیگم کی طرف اجازت طلب نگاہوں سے دیکھا، جس نے آنکھوں اور انگلیوں کی مدد سے اجازت اور ملاقات کا دورانیہ بتا دیا۔
سالار صاحب بمشکل مجھ تک پہنچے اور ابھی سوال جواب ہو ہی رہے تھے کہ ایک کڑکتی آواز ”سالار“ ہمارے کانوں تک پہنچی۔
یہ آواز سنتے ہی وہ اس طرح تڑپ کر اٹھے جیسے کرنٹ لگ گیا ہو اور تیر کی طرح سیدھے اپنی بیگم کے چرنوں میں پہنچ گئے۔
میں نے تاسف سے اس کی طرف دیکھا اور پھر مراد کی طرف جو بانچھیں کھلائے میری طرف دیکھ رہا تھا۔

“ادھر دیکھ“ مراد نے ایک طرف اشاہ کیا۔


ایک جوان ایک کبوتر کی طرح اپنی کبوتری یعنی بیگم کے چاروں طرف چکر سے کاٹ رہا تھا۔ میک اپ کی کسرت سے میاں بیوی میں فرق کرنا دشوار لگ رہا تھا لیکن صرف کپڑوں کی وجہ سے پہچانے جارہے تھے۔
”یار! یہ آج کل کے جوان اتنے کیوں “تھڑ“ گئے ہیں۔ لگتا ہے ان سب کو ان کی بیگمات نے گود لیا ہوا ہے۔“ میں نے مراد سے کہا۔
“واقعی یار! چلو ”لوسی“ بندے کو تو کسی لڑکی نے پوری عمر گھاس نہیں ڈالی ہوتی ہے اس کا تو رن مرید ہونا بنتا ہے لیکن بہت سے ٹھرکی لونڈے بھی اس طرح بیوی کے قدموں کی خاک بنے ہوۓ ہیں کہ مجھے یقین ہے انہیں گھول کر ”کچھ“ پلادیا گیا ہے“ مراد نے بدمعاشانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

مراد نے مجھے ایک سال تک بہت سے لوگوں سے ملوایا۔ اور اب ہم پاکستان میں پائے جانے والے پالتو شوہروں اوہ معاف کیجیے گا میرا مطلب رن مریدان کی نشانیوں پر اپنی تحقیق کا نچوڑ درج ذیل نکات کی صورت میں پیش کررہے ہیں۔

١ـ یہ بندہ اپنے بہن بھائیوں اور رشتے داروں سے سے ملنے سے کترائے گا لیکن بیگم کے بہن بھائیوں اور دور دراز کے رشتے داروں کے گھر بھاگ بھاگ کر جائے گا۔


٢ـ لڑکے کے رشتے داروں کی شادی بیاہوں میں یہ میاں بیوی ایسے حلیے میں پہنچیں گے کہ جیسے قل میں آئے ہوں اور انتہائی بےزاری کے عالم میں کھانا کھاکر سب سے پہلے نکل جائیں گے لیکن
اگر لڑکی کے رشتے داروں کی شادی ہو تو تمام تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے نظر آئیں گے۔


٣ـ خدانخواستہ لڑکے کے رشتہ داروں کی فوتگی ہو تو صرف لڑکا بمشکل پہنچ پائے گا وگرنہ اکثروبیشتر کام کا بہانہ بنا دیا جائے گا۔ لیکن اگر فوتگی بیگم کے رشتہ داروں میں ہوئی ہو تو بمع بیگم کے ضرور پہنچا جائے گا۔
٤ـ رن مرید کے بہن بھائی بالخصوص اگر بہنیں غلطی سے اس کے گھر ملنے پہنچ جائیں تو یہ ایسا بےزار منہ بناکر ملے گا کہ اگلے کا شرمندگی سے براحال ہوجائے گا اور وہ تھوڑی دیر بعد اٹھ کر چلے جانے پر مجبور ہوجائیں گے، لیکن اگر اس کی بیگم کی بہنیں یا بھائی آجائیں تو یہ لہک لہک کر مٹک مٹک کر خوشی سے دوہرا ہوجائے گا اور خدمت میں پیش پیش ہوگا۔


٥۔ اگر ان صاحب کی بیگم تھوڑی سی رحم دل ہوگی تو دور سے آئے ہوئے سسرالی رشتے داروں کو کھانا کھلا دے گی وگرنہ ایسا رویہ دکھائے گی کہ اگلے کی پانی مانگنے کی ہمت بھی نہ ہوگی۔
٦ـ رن مرید کے نزدیک صرف اور صرف اس کی بیوی ہی اس کی ہمدرد ہوتی ہے اور باقی تمام دنیا بشمول ماں باپ کے اس کی دشمن ہے۔ یہ بات اس کے کانوں میں صبح، دوپہر، شام کو ڈالی جاتی رہتی ہے۔

کچھ لوگوں خاص طور پر رن مریدان اور ان کی بیگمات کا میری تحریر سے متفق ہونا بالکل بھی ضروری نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے تمام جانثاران بیگم مجھ پر چڑھ دوڑیں اور مجھے برابھلا کہیں لیکن فکر ناٹ (نہیں)! میں چکنا گھڑا ہوں اور مجھ پر کوئی اثر نہ ہوگا۔
البتہ آپ لوگ آپ میری تحریر کو مثبت انداز میں لے کر اپنے اندر بہتری لاسکتے ہیں۔ یقین کیجیے کسی کو بھی آپ کی اپنی بیوی سے محبت پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن تھوڑا سا توازن رکھنا سیکھیے۔ آپ کے ماں باپ جنہوں نے پڑھا لکھا کر اس قابل بنایا اور بہن بھائی جو آپ کے لیے دعائیں کرتے نہ تھکتے تھے صرف دو تین سال میں آپ کے دشمن کیسے ہوگئے؟


اللہ نے مرد کو اس ہی لیے طاقتور بنایا ہے کہ وہ تمام رشتوں کو ساتھ لے کر چلے ناکہ صرف ایک ہی رشتے پر اس کی دنیا ختم ہوجائے۔ تھوڑی دیر کے لیے اکیلے میں بیٹھ کر سوچیے گاـ مجھے یقین ہے کہ بہت سے لوگوں کے زخم تازہ ہوجائیں گے اور وہ اپنے ساس، سسر، دیور، نندوں کے ظلم پر پھٹ جائیں گے لیکن اس وقت میرا موضوع صرف اور صرف رن مریدی ہے۔

تو جناب کچھ اور نشانیاں آپ لوگوں کو پتا ہوں تو مجھے بتا کر میرے علم میں ضرور اضافہ کیجیے گا کیونکہ میری تحاریر آپ لوگوں کے مشوروں کے بنا ادھوری ہیں۔

- Advertisement -

Leave a Reply

- Advertisment -

آج کی خبریں

%d bloggers like this: